میرے مسیحا سے جاکے کہہ دو
کہ دم بہ لب ہے قرارِ ہستی
کہ جاںگسل انتظار تیرا
کہو کہ مہمان رہ گیا ہے
بس ایک پل کا بیمار تیرا
میرے مسیحا
تیرے سفر میں ہوئی جو روشن
وہ صبحیں راتوں میں ڈھل گئیں ہیں
کہ تیرے خوابوںکی حدتوں سے
کسی کی آنکھیں ہی جل گئی ہیں
میرے مسیحا سے جاکے کہہ دو
کہ درد اتنا سوا ہوا ہے
یہ نبض جیسے تھمی ہوئی ہے
یہ وقت جیسے رکا ہوا ہے
میرے مسیحا
سہارے جس کے کٹی ہے ہر شب
وہ آس سینے میں گھٹ رہی ہے
میرے مسیحا ! خبر بھی لو اب!
متاعِ جاں ہے کہ لٹ رہی ہے!
میرے مسیحا !
No comments:
Post a Comment